تحریر ۔۔۔۔ زید سلطان
سلطنت شہتوت (کیلاش) میں پہلے ناشتے پر قہوے والی پتی کی چائے پینے کے بعد ایک ایمرجنسی میٹنگ بیٹھی جسکی صدارت ہمارے بہت ہی خوش خوراک اور خوش مزاج خالد صاحب نے کی اور چائے کا آرڈر ایک بار پھر دے دیا گیا ۔ گیارہ بجے تک پیٹ پوجا اور صاف شفاف دھوپ سے وٹامن ڈی حاصل کرنے کے بعد ہمارا رخ تھا ہمارے بہت ہی پیارے گائیڈ شاہ عالم کے گاؤں (برون) کی طرف۔ رخ تو ہمارا کسی اور جانب تھا جہاں فیسٹیول سے متعلقہ کوئی افتتاحی تقریب تھی جو کہ سات بجے ہوتی ھے اور ہم اس میں شرکت کے لیے بارہ بجے ہشاش بشاش ہوکر نکلے تھے۔
کیلاش میں جتنے بھی گھر دیکھے ان میں مجھے جو گھر سب سے زیادہ پسند آیا وہ یہی شاہ عالم کا گھر تھا جس کے سامنے سے دریا گزر رہا اور باقی تینوں جانب سے سرسبز و شاداب کھیتوں نے گھیر رکھا تھا ۔ ان کے گھر قہوے سے ہماری مہمان نوازی کی گئی اور انتہائی محبت سے ملے بالکل نہیں محسوس ہوا کہ ہم دور کسی شہر سے آئے ہوئے ہیں۔
کیلاش قبیلے کے لوگ تین بڑی وادیوں میں آباد ھیں ۔ سب سے زیادہ آبادی انکی بمبوریت میں ملتی ھے اسکے بعد دوسری بڑی آبادی رمبور میں پائی جاتی ھے اور تیسری وادی بریر ھے جس کو دیکھنا اب کی بار رہ گیا تھا شاہد پھر ایک بار جانا لکھا ہو۔۔۔
تو بات چل رہی تھی بمبوریت کے گاؤں برون کی جو ندی کے اس پار آباد ھے ندی کا شور ایک سریلے نغمے کی طرح پورے گاؤں میں سنائی دیتا ھے اور سرسبز کھیت کہ جن میں جابجا ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشمے بہتے ہیں اور شہتوت کے درختوں پر کیلاشی شہزادیوں نے اپنے بیٹھنے کی جگہیں بنا رکھی ہیں دور دور تک سکون اور اطمینان پھیلا ہوا ھے ۔ جنت کا سا سکون ، نا کوئی فکر نا غم ، نا لڑائی نا جھگڑا ، نا ٹریفک کا شور نا گاڑیوں کا دھواں اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ ان کو اس دنیا میں ہی جنت ملی ہوئی ھے تو غلط نا ہوگا۔
کیلاش لوگوں کو سیاہ کافر اور سیاہ پوش بھی کہا جاتا ھے سیاہ پوش کہنے کی وجہ ان کی عورتوں کے سیاہ لباس ہیں ۔ شاہی مسجد چترال کے واش رومز کے سامنے اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے ایک یونانی (Greece ) سیاح سے ملاقات ہوئی ۔ Bazel انکا نام تھا جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیلاش میں اٹلی اور یونان کے سیاح بہت زیادہ تعداد میں نظر آتے ہیں اسکی وجہ کیا ھے؟ تو وہ بڑی گرم جوشی سے کہنے لگے
“because their ancestors came from greece and were soldiers of Alexander the great”
تو میں نے ایک لمبا سا ہممممم کیا اور تبھی bazel سر کا واش روم جانے کا نمبر آگیا اور میں سوچتا رہ گیا کہ یہ لوگ اپنی تاریخ کے پیچھے کہاں تک آگئے ۔
کیلاش میں پہلے روز ہم پانچ سات لوگ ہمارے آرگنائزر اور بہت ہی پیارے عمران بھائی کیساتھ تھے اور دوسرا گروپ ہمارے دوسرے آرگنائزر اسد بھائی کے (جو اپنی بات ”اچھا تو ایسا کرتے ہیں “کیساتھ شروع کرتے اور اتنا میٹھا بولتے ہیں کہ جیسے شیرینی انکی زبان سے ٹپک رہی ہو) ان کے ساتھ رہا اور دن دو بجے سے پہلے ہی میوزیم کے سامنے دونوں گروپس یکجا ہوئے اور پڑاؤ ڈالا کہ اب کی بار میوزیم سے لیٹ نہیں ہونا جس میں ہم کامیاب رہے ۔ میوزیم سے نکلنے کے بعد سب کی صورت دیکھ کر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس حالت میں ہوٹل پہنچنا ممکن نہیں سو جتنا قریب کوئی ہوٹل مل سکے تو پیٹ پوجا کرکے پھر کیلاش کے پرانے قبرستان میں مردوں کی ہڈیوں سے دعا سلام کرنے چلیں گے۔
اب مردوں کی ہڈیاں کیلاش کی نسل نو سے کیا کہہ رہی تھی اس بارے میں اگلی قسط میں بات کریں گے۔
(جاری ھے)