تحریر ۔ زید سلطان
گزشتہ جمعہ کی نماز سوات موٹروے پر ایک مسجد میں ادا کرنے کے بعد چکدرہ انٹرچینج سے موٹروے کو بائے بائے کہا اور دیر کی خوبصورت سانپ کی طرح بل کھاتی سڑک جو دریا کیساتھ ساتھ بلندی کی طرف جارہی ھے ہماری کوسٹر رانی بھی اس پر نہایت خطرناک طریقے سے چل پڑی ، ہر موڑ اور ہر اوور ٹیکنگ پر دعاء کرسی پڑھتے ہوئے بالآخر دس کلومیٹر سے لمبی لواری ٹنل نے گاڑی کو اپنے اندر چھپا لیا ۔
اس ٹنل نے چترال اور اس سے ملحقہ علاقے کے لوگوں اور اندرون وبیرون ملک سیاحوں کے لیے بہت آسانی پیدا کی ھے کہ ایک تو دو سے تین گھنٹے کا سفر کم ہوا ھے اور دوسرا سردیوں میں اب لواری ٹنل کی وجہ سے روڈ بلاک نہیں ہوتا برفباری کے فوری بعد مشینری رستے صاف کردیتی ھے۔
سفر تو بہت کیے مگر اس بار کیلاش کے سفر میں ایسے ایسے خوفناک ڈرائیور ملے ہیں کہ الامان والحفیظ ۔۔۔ خیر اللہ کے کرم سے کوئی ایسا واقعہ نہیں پیش آیا اس لیے یہاں بیٹھا آپ کو کہانی سنا رہا ہوں۔
تو خیر جمعہ کی صبح دس بجے اسلام آباد سے چلنے والی گاڑی بھی ہمارا ڈرائیور بھی اور ہم سب کے بھوکے معدے بھی (دروش) میں جاکر جواب دے گئے اور وہاں کے فائیو چاند ہوٹل میں چکن کم نمک زیادہ کڑاہی سے اپنے زار و قطار معدے کو تسلی دی پھر چائے پی کر نمک کو معدے سے دھو ڈالا کہ کہیں باتیں بھی نمکین نا ہوجائیں پانچ دن کا سفر بالکل نئے لوگوں کیساتھ گزارنا ھے بھائی میٹھی چیزیں کھاؤ اور میٹھی باتیں کرو ۔
اللہ کے فضل و کرم اور دروش میں ملنے والی چائے اور سگریٹ کی مہربانی تھی کہ ڈرائیور نے خیر و عافیت سے رات بارہ بجے کے آس پاس ہمیں چترال کی جنت وادئ ایون میں اتارا تو ہم نے سکھ کا سانس لیا کہ چلو بھائی ایک دہشتناک ڈرائیور سے جان چھوٹی لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا اور جو منظور تھا وہ امپورٹڈ حکومت کی طرح ہمیں بالکل ہی نامنظور تھا مگر جیسے وہ چور ہم پر مسلط کیے گئے ایسے ہی ایون سے کیلاش تک پانچ گاڑیوں کے پانچ ڈرائیورز جو کرتب دکھانے والے سٹنٹ مین زیادہ اور ڑرائیورز کم تھے انہوں نے ہم پانچ پانچ لوگوں کو دبوچا اور Need for speed تو چھوڑیں کنویں میں بائیک چلانے والوں سے بھی دو ہاتھ آگے تھے خیر اللہ نے کیلاش دکھانا تھا تو ہم کوئی ڈیڑھ بجے کیلاش کے سردار ہوٹل میں پہنچ گئے۔
پھر بستر جس کو جہاں ملا تو سو گئے باقی کہانی صبح جاگ کر سناؤں گا۔
(جاری ھے)